Thursday 7 July 2011

ٹھریر ایک اور سہی


ڈی جا وو، جسے ستم ظریف لوگو ں نے مستقبل کی یادوں کا بھی نام دیا ، معاشرے میں جتنا عام ہے اتنا ہی ہم اس کے بارے میں کم جانتے ہیں۔ ڈی جا وو فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’دیکھا ہوا‘‘۔ یہ اصطلاح اس عمل کے لئے سب سے پہلے ایک فرانسسی پیراسائیکولوجسٹ ایمل بائیریک نے اپنی کتاب "The Future of Psychic Sciences" میں استعمال کی جس کے بعد سے یہی نام زبان زد عام ہو گیا۔ ڈی جا وو اتنا عام ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق تمام آبادی کا کم از کم ایک تہائی حصہ زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کا سامنا ضرور کرتا ہے۔ 

اور دکھ ہمارے ساتھی ہوں


پھول بے رنگ ہوجاتے ہیں
کبھی خواب سارے مر جاتے ہیں
کبھی دل اداس ہوتا ہے
کبھی لوگ ناراض لگتے ہیں
نفع نقصان کا ہر اندیشہ
آپ ہی آپ مر جاتا ہے
نہ جیت کی کوئی خوشی ہوتی
نہ ہار کا کوئی ڈر باقی
تنہائی کا غلبہ ہوتا ہے
دل بھی مرنے لگتا ہے
وہ بس فرار چاہتا ہے
اور ایک ہی تمنا کرتا ہے
کاش کہ ایسی دنیا ہو
جہاں صرف تنہائی ہو
اور دکھ ہمارے ساتھی ہوں
لیکن
یہ سب وقتی باتیں ہیں
نہ خواب کبھی بھی مرتے ہیں
نہ دل مردہ ہوتا ہے
زندگی چلتی رہتی ہے
بس احساس بدلتے رہتے ہیں!

Wednesday 29 June 2011

تحریر2



بزعمِ خود دانشور، مصنف نما شے ہونے کی کافی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اور اگر آپ گمنام یا نو آموز ہیں تو یہ قیمت کئی گنا بڑھ جایا کرتی ہے۔ میٹر یا مواد کی تلاش میں ہر چیز پہ غور کرنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ سامنے آتا ہے اس کے وہ معانی بنتے ہیں۔ اچھے سیل مین کی طرح مواد کو مارکیٹ کرنا پڑتا ہے۔ اور ابتدائی مراحل پہ مارکیٹنگ کے لیے مواد کی موجودگی از بس ضروری ہے کہ ابھی لوگ آپ کا نام نہیں جانتے اور خریدار کے سامنے کچھ رکھنا بھی ہے۔  ہمارے پاس تحقیق سے زیادہ تنقید کے شائق آتے ہیں سو ان کو راغب کرنے کے واسطے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے ورنہ ایک تنقید برائے تنقید پہ مشتمل تبصرہ ہی ہفتوں کی محنت پہ پانی پھیرنے کو کافی رہتا ہے۔ اور آنلائن دنیا میں ویسے بھی تبصرہ لینا جان جوکھم کا کام ہے۔ جتنا آسان ہمیں پڑھنا ہے اتنا ہی آسان ہم سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ہے۔ کوئی ایسی چیز جو قاری کو کلک نہ کر سکے، قاری کو ہفتوں دور رکھ سکتی ہے۔ اور قاری کے ذہن میں آپ کی بات اگر غلط جگہ کلک کر جائے تو یہ عرصہ مہینوں میں بدل جاتا ہے۔ کتاب یا اخبار کی مانند نہ قارئین کی آپشنز محدود ہیں کہ اب یہی میسر ہے اسے ہی پڑھو اور کتاب بند کرنے کے ایک طرف رکھنے کی نسبت بلاگ بند یا سکپ کرنا کافی آسان ہے۔

Saturday 18 June 2011

تجربات



تحریر


بزعمِ خود دانشور، مصنف نما شے ہونے کی کافی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اور اگر آپ گمنام یا نو آموز ہیں تو یہ قیمت کئی گنا بڑھ جایا کرتی ہے۔ میٹر یا مواد کی تلاش میں ہر چیز پہ غور کرنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ سامنے آتا ہے اس کے وہ معانی بنتے ہیں۔ اچھے سیل مین کی طرح مواد کو مارکیٹ کرنا پڑتا ہے۔ اور ابتدائی مراحل پہ مارکیٹنگ کے لیے مواد کی موجودگی از بس ضروری ہے کہ ابھی لوگ آپ کا نام نہیں جانتے اور خریدار کے سامنے کچھ رکھنا بھی ہے۔  ہمارے پاس تحقیق سے زیادہ تنقید کے شائق آتے ہیں سو ان کو راغب کرنے کے واسطے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے ورنہ ایک تنقید برائے تنقید پہ مشتمل تبصرہ ہی ہفتوں کی محنت پہ پانی پھیرنے کو کافی رہتا ہے۔ اور آنلائن دنیا میں ویسے بھی تبصرہ لینا جان جوکھم کا کام ہے۔ جتنا آسان ہمیں پڑھنا ہے اتنا ہی آسان ہم سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ہے۔ کوئی ایسی چیز جو قاری کو کلک نہ کر سکے، قاری کو ہفتوں دور رکھ سکتی ہے۔ اور قاری کے ذہن میں آپ کی بات اگر غلط جگہ کلک کر جائے تو یہ عرصہ مہینوں میں بدل جاتا ہے۔ کتاب یا اخبار کی مانند نہ قارئین کی آپشنز محدود ہیں کہ اب یہی میسر ہے اسے ہی پڑھو اور کتاب بند کرنے کے ایک طرف رکھنے کی نسبت بلاگ بند یا سکپ کرنا کافی آسان ہے۔

Flickr